مقدمہ
اللہ رب العزت کی رحمت اور بخشش کے دروازے ہمیشہ اپنے بندوں کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ ’’لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ‘‘ (الزمر: 53) (اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو) کی فضائوں میں رحمت الٰہی کا دریا ہمہ وقت موجزن رہتا ہے۔ اس کی رحمت کا سایہ ہر وقت اپنے بندوں پر سایہ فگن رہتا ہے، اور مخلوق کو اپنے سایہ عاطفت میں لیے رکھنا اسی ہستی کی شانِ کریمانہ ہے۔ اس غفار، رحمن و رحیم پروردگار نے اپنی اس ناتواں مخلوق پر مزید کرم فرمانے اور اپنے گناہ گار بندوں کی لغزشوں اور خطاؤں کی بخشش و مغفرت کے لیے کچھ خاص اوقات کو خصوصی برکت و فضیلت عطا فرمائی ہے جن میں اس کی رحمت و مغفرت اور عطاؤں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے اور جنہیں وہ خاص قبولیت کے شرف سے نوازتا ہے۔
ان خاص لمحات، خاص ایام اور خاص مہینوں میں جن کو یہ فضیلت حاصل ہے، ربِ کائنات کی رحمت کی برسات معمول سے بڑھ جاتی ہے۔ ان خصوصی ساعتوں میں ماہِ شعبان المعظم کو بالعموم اور 15 شعبان المعظم کی رات یعنی ’’شبِ برات‘‘ کو خاص اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں، ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں شبِ برات کی فضیلت، اہمیت اور اس رات میں کیے جانے والے اعمال کا جائزہ لیں گے۔
Read More: شب برات 2025

شعبان المعظم کی فضیلت
شعبان المعظم اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ ہے جو دو مبارک مہینوں، رجب اور رمضان، کے درمیان میں آتا ہے جس سے اس کی فضیلت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ شعبان کے معنی ہیں “منتشر ہونا” یا “شاخیں نکالنا”۔ کہا جاتا ہے کہ اس مہینے میں عرب لوگ پانی کی تلاش میں ادھر اُدھر منتشر ہو جاتے تھے، اس لیے اس مہینے کا نام شعبان رکھا گیا۔ تاہم، اس مہینے کی روحانی اہمیت اس کے نام سے کہیں زیادہ ہے۔
- غوث الاعظم کا قول: حضور غوث الاعظم الشیخ عبدالقادر جیلانیؒ ’غنیۃ الطالبین‘ میں بیان فرماتے ہیں: ’’لفظ شعبان پانچ حرفوں کا مجموعہ ہے: {ش، ع، ب، الف اور ن} ’شین‘ شرف سے، ’عین‘ علو، عظمت (بلندی) سے، ’باء‘ بِر (نیکی اور تقویٰ) سے، ’الف‘ اُلفت (اور محبت) سے اور ’نون‘ نور سے ماخوذ ہے۔ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کو یہ چار چیزیں عطا ہوتی ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں نیکیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور برکات کا نزول ہوتا ہے، گناہ گار چھوڑ دیے جاتے ہیں اور برائیاں مٹا دی جاتی ہیں اور مخلوق میں سب سے افضل اور بہترین ہستی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں کثرت سے ہدیہ درود و سلام بھیجا جاتا ہے۔‘‘
- درود و سلام کا مہینہ: امام قسطلانی نے ’المواہب اللدنیہ‘ میں ایک لطیف بات کہی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’بے شک شعبان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کا مہینہ بھی ہے، اس لیے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں درود و سلام کی آیت نازل ہوئی۔‘‘ اس آیت کا ذکر اس طرح ہے: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الأحزاب: 56) (بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجو)۔ یہ آیت ماہِ شعبان میں نازل ہوئی تو شعبان کا تعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درود و سلام کے ساتھ بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بخشش و مغفرت اور توبہ کے ساتھ بھی ہے۔ لہٰذا اس ماہ اور شبِ برات کی عبادت سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے بھی قربت نصیب ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی قرب نصیب ہوتا ہے۔
- حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مہینہ: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کو اپنا مہینہ قرار دیا اور اس ماہ کی حرمت و تعظیم کو اپنی حرمت و تعظیم قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ماہ میں کثرت سے روزے رکھتے اور دیگر اعمالِ صالحہ بجا لاتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ماہِ رمضان اﷲ تعالیٰ کا مہینہ ہے، اور ماہِ شعبان میرا مہینہ ہے، شعبان (گناہوں سے) پاک کرنے والا ہے اور رمضان (گناہوں کو) ختم کر دینے والا مہینہ ہے۔‘‘
- رمضان کی تیاری: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ماہِ رجب کی آمد پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں فرمایا کرتے: ’’اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکتیں نازل فرما اور رمضان ہمیں نصیب فرما۔‘‘ اس دعا سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رمضان المبارک کی تیاری شعبان سے ہی شروع کر دیتے تھے۔ وہ اپنے دلوں کو رمضان کے استقبال کے لیے تیار کرتے تھے اور اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
- روزوں کی کثرت: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام مہینوں میں سے شعبان کے روزے رکھنا زیادہ محبوب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان (کے روزوں) کو رمضان المبارک کے ساتھ ملا دیا کرتے تھے۔‘‘ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان میں کثرت سے روزے رکھتے تھے تاکہ رمضان المبارک کے لیے جسمانی اور روحانی طور پر تیار ہو سکیں۔
- اعمال کی پیشی: ماہِ شعبان کی اہمیت و فضیلت کا اس امر سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال اﷲتعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں۔ حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کو سب مہینوں سے زیادہ شعبان المعظم کے مہینے میں روزے رکھتے دیکھتا ہوں۔ (اس کی کیا وجہ ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ وہ (مقدس) مہینہ ہے جس سے لوگ غافل اور سست ہیں۔ رجب اور رمضان المبارک کے درمیان یہ وہ مہینہ ہے جس میں (بندوں کے) اعمال رب العالمین کے حضور لے جائے جاتے ہیں۔ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اس حال میں اُٹھائے جائیں کہ میں روزہ سے ہوں۔‘‘ اس حدیث مبارکہ میں خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ماہ کی فضیلت کا ایک راز یہ بتا دیا کہ شعبان میں ہمارے اعمال اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں۔ جو شخص اس مہینے میں جتنے زیادہ اعمالِ صالحہ بجا لاتا ہے، زیادہ عبادات کرتا ہے، روزے رکھتا ہے، صدقات و خیرات کرتا ہے، اسے اتنی ہی اﷲ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت نصیب ہوتی ہے اور اسی قدر بارگاہِ الٰہی سے قرب اور مقبولیت نصیب ہوتی ہے۔
شب برات کی حقیقت اور اہمیت
اب اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ آخر کار کوئی سبب اور وجہ تو ہوگی اور کوئی تو خیر اور برکت کا پہلو ایسا ہوگا جس بناء پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماہِ شعبان کو ایسی فضیلت و بزرگی عطا فرمائی؟ اس ماہِ مبارک کی فضیلت کا سبب اس ماہ کی 15 ویں رات ہے جسے ’’شبِ برات‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ حضرت عطاء بن یسار سے منقول ہے: ’’لیلۃ القدر کے بعد کوئی رات ایسی نہیں جو نصف شعبان کی رات سے افضل ہو۔‘‘ اس فضیلت و بزرگی والی رات کے کئی نام ہیں:
- لیلۃ المبارکۃ: برکتوں والی رات
- لیلۃ البراء ۃ: دوزخ سے بری ہونے اور آزادی ملنے کی رات
- لیلۃ الصَّک: دستاویز والی رات
- لیلۃ الرحمۃ: خاص رحمتِ الہٰی کے نزول کی رات
عرفِ عام میں اسے شبِ برات یعنی دوزخ سے نجات اور آزادی کی رات بھی کہتے ہیں۔ لفظ شبِ برات اَحادیث مبارکہ کے الفاظ ’’عتقاء من النار‘‘ کا با محاورہ اُردو ترجمہ ہے۔ اس رات کو یہ نام خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا کیوں کہ اس رات رحمتِ خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں۔
شبِ برات کے پانچ خصائص
شبِ برات کو اﷲ تعالیٰ نے پانچ خاص صفات عطا فرمائیں۔ جنہیں کثیر ائمہ نے بیان کیا فرماتے ہیں:
- حکمت والے امور کے فیصلہ کی رات: اس شب کی پہلی خاصیت یہ ہے کہ اس شب میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ (الدخان: 4) (اس رات میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتاہے۔) مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس رات میں سال بھر میں ہونے والے تمام واقعات، موت و حیات، رزق اور دیگر امور کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
- عبادت کی فضیلت: اس رات کی دوسری خاصیت یہ ہے کہ اس رات میں عبادت کو ایک خاص فضیلت حاصل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اس رات میں جو شخص سو رکعات نماز ادا کرتاہے، اﷲ تعالیٰ اس کی طرف سو (100) فرشتے بھیجتا ہے۔ (جن میں سے) تیس فرشتے اسے جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ تیس فرشتے اسے آگ کے عذاب سے محفوظ رکھتے ہیں۔ تیس فرشتے آفاتِ دنیاوی سے اس کا دفاع کرتے ہیں۔ اور دس فرشتے اسے شیطانی چالوں سے بچاتے ہیں۔‘‘
- رحمتِ الٰہی کے نزول کی رات: اس رات کی تیسری خاصیت یہ ہے کہ اس میں رحمتِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’یقینا اﷲ تعالیٰ اس رات بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر میری اُمت پر رحم فرماتا ہے۔‘‘ بنو کلب ایک قبیلہ تھا جو کثرت سے بکریاں پالتا تھا۔ اس حدیث میں ان کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رات بے شمار لوگوں پر رحم فرماتا ہے۔
- گناہوں کی بخشش اور معافی کی رات: اس رات کی چوتھی خاصیت یہ ہے کہ یہ گناہوں کی بخشش اور معافی کے حصول کی رات ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک اس رات اﷲ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی مغفرت فرما دیتا ہے، سوائے جادو ٹونہ کرنے والے، بغض و کینہ رکھنے والے، شرابی، والدین کے نافرمان اور بدکاری پر اصرار کرنے والے کے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شبِ برات مغفرت کی رات ہے لیکن کچھ گناہ ایسے ہیں جن کی موجودگی میں مغفرت نہیں ہوتی۔ اس لیے ہمیں ان گناہوں سے بچنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے۔
- حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکمل شفاعت عطا فرمائے جانے کی رات: اس رات کی پانچویں خاصیت یہ ہے کہ اس رات اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکمل شفاعت عطا فرمائی۔ اور وہ اس طرح کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کی تیرھویں رات اپنی امت کے لیے شفاعت کا سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیسرا حصہ عطا فرمایا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کی چودھویں رات یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو تہائی حصہ عطا کیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کی پندرہویں رات سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام شفاعت عطا فرما دی گئی، سوائے اس شخص کے جو مالک سے بدکے ہوئے اونٹ کی طرح (اپنے مالک حقیقی) اﷲ تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے (یعنی جو مسلسل نافرمانی پر مصر ہو)۔

شبِ برأت میں سرانجام پانے والے امورِ حکمت
شب برأت رحمتِ خداوندی کے طفیل لا تعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں۔ اس رات کو اللہ تعالیٰ غروبِ آفتاب کے وقت سے ہی (اپنی شان کے لائق) آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے۔
- مغفرت کا اعلان: اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: ’’ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (خواب گاہ میں) نہ پایا تو میں (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں) نکلی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ نا انصافی کریں گے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے سوچا شاید آپ کسی دوسری زوجہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات کو (اپنی شان کے لائق) آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔‘‘
- تقدیر کا لکھا جانا: دوسری روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ اے عائشہ! تمھیں معلوم ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا: (یارسول اللہ!) اس رات میں کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اس رات سال میں جتنے بھی لوگ پیدا ہونے والے ہیں سب کے نام لکھ دیے جاتے ہیں اور جتنے لوگ فوت ہونے والے ہیں ان سب کے نام بھی لکھ دیے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کے (سارے سال کے) اَعمال اٹھالیے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی روزی مقرر کی جاتی ہے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شبِ برات میں انسانوں کی تقدیر کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس رات میں اللہ تعالیٰ سے اپنی اچھی تقدیر کی دعا کرنی چاہیے۔
شبِ برأت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولاتِ مبارکہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس رات کو جو خاص عمل فرماتے، ذیل میں ان کو بیان کیا جارہا ہے:
- کثرتِ دعا اور گریہ و زاری: اس رات میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثرت سے دعائیں کرتے اور اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں گریہ کناں ہوتے تھے۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ شعبان المعظم کی 15 ویں رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سجدے میں یہ دعا کر رہے تھے: ’’(اے اللہ!) میرے خیال اور باطن نے تجھے سجدہ کیا، تجھ پر میرا دل ایمان لایا، یہ میرا ہاتھ ہے اور میں نے اس کے ذریعے اپنی جان پر ظلم نہیں کیا، اے عظیم! ہر عظیم سے امید باندھی جاتی ہے، اے عظیم! بڑے گناہوں کو بخش دے۔ میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اس کی تخلیق کی اور اس کی سمع و بصر کی قوتوں کو جدا جدا بنایا۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سرِ انور اٹھایا اور دوبارہ سجدے میں گر گئے اور بارگاہِ الٰہی میں عرض کرنے لگے: ’’(اے اللہ!) میں تیری رضا کے ذریعے تیری ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں، تیرے عفو کے ذریعے تیرے قہر سے پناہ مانگتا ہوں اور میں تیرے ذریعے تجھ ہی سے (یعنی تیری پکڑ سے) پناہ مانگتا ہوں، میں اس طرح تیری ثنا کا حق ادا نہیں کر سکتا جیسا کہ تو نے خود اپنی ثنا بیان کی ہے، میں ویسا ہی کہتا ہوں جیسے میرے بھائی حضرت داؤد نے کہا، میں اپنا چہرہ اپنے مالک کے سامنے خاک آلود کرتا ہوں، اور وہ حق دار ہے کہ اس کو سجدہ کیا جائے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سرِ انور اٹھایا اور عرض کیا: ’’اے اللہ! مجھے ایسا دل عطا فرما جو ہر شر سے پاک، صاف ہو، نہ بے وفا ہو اور نہ بدبخت ہو۔‘‘ اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس رات میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے نیک دل کی دعا کرتے تھے۔
- شبِ برأت کو جاگنا اور صبح روزہ رکھنا: حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو اس رات کو قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات سورج غروب ہوتے ہی (اپنی شان کے لائق) آسمان دنیا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور فرماتا ہے: کیا کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا نہیں کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کیا کوئی مجھ سے رزق طلب کرنے والا نہیں کہ میں اسے رزق دوں؟ کیا کوئی مبتلائے مصیبت نہیں کہ میں اُسے عافیت عطا کر دوں؟ کیا کوئی ایسا نہیں؟ کوئی ایسا نہیں؟ (اسی طرح ارشاد ہوتا رہتا ہے) یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شبِ برات میں جاگنا اور عبادت کرنا سنت ہے۔ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص طور پر متوجہ ہوتی ہے اور وہ اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرتا ہے۔
- قبرستان جانا اور جمیع مسلمانوں کیلئے بخشش کی دعا کرنا: مسلمانوں کو چاہیے کہ اس رات میں اپنے گناہوں پر بھی توبہ کریں اور اپنے والدین، اساتذہ و رشتہ داروں کے لیے بھی اِستغفار کریں اور یہ عمل رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ مبارکہ سے بھی ثابت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی طویل حدیث مبارکہ بیان ہو چکی جس میں آپ نے بیان فرمایا: ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے کسی حصے میں اچانک ان کے پاس سے اٹھ کر کہیں تشریف لے گئے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت البقیع میں مومنین ومومنات اور شہداء کے لیے بخشش و استغفار کی دعا کرتے پایا۔‘‘ اس حدیث مبارکہ سے تین باتیں ثابت ہوئیں:
- شبِ برأت کو اُٹھ کر عبادت کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔
- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بطورِ خاص صرف عبادت نہیں کی بلکہ اس رات مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع بھی تشریف لے گئے۔
- قبرستان جانا اور وہاں تمام مسلمانوں کے لیے بخشش و مغفرت کی دعا کرنا بھی سنت ہے۔
شعبان کی پندرہویں شب کے بارے میں وارد ہونے والی اَحادیث مبارکہ کے مطالعہ سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ اس مقدس رات قبرستان جانا، کثرت سے اِستغفار کرنا، شب بیداری اور کثرت سے نوافل ادا کرنا اور اس دن روزہ رکھنا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولاتِ مبارکہ میں سے تھا۔
شبِ برات کے اعمال اور دعائیں
مذکورہ بالا دعائوں کے ساتھ ساتھ اس رات درج ذیل دعا پڑھنا بھی مستحب ہے:
- مغفرت کی دعا: ’’اے اللہ! تُو بہت معاف کرنے والا اور کرم فرمانے والا ہے۔ عفو و درگزر کو پسند کرتا ہے پس مجھے معاف فرما دے۔‘‘ اس دعا کو حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: اَللّٰهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ كَرِيْمٌ، تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي
- شعبان کی 15 ویں شب میں سورۃ بقرہ کا آخری رکوع اکیس مرتبہ پڑھنا امن و سلامتی اور حفاظت جان و مال کے لیے بہت مفید ہے۔ سورۃ البقرہ کی آخری آیات اس طرح ہیں: آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (285) لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (286)
- فراخی رزق کے لیے دعا: امام غزالی اِحیاء علوم الدین میں فرماتے ہیں کہ شبِ برأت کی رات لوگ یہ دعا کثرت سے پڑھیں۔
شب برات میں کچھ چیزیں نہیں کرنی چاہیے
شبِ برات ایک بابرکت رات ہے
- آتش بازی کرنا اور پٹاخے چلانا۔ یہ ایک فضول اور ناجائز کام ہے جس سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے۔
جامعہ سعیدیہ دارالقرآن کا کردار
جامعہ سعیدیہ دارالقرآن ایک تعلیمی ادارہ ہے جو کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں علومِ اسلامیہ کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ ادارہ گزشتہ 25 سالوں سے جسمانی طور پر تعلیم فراہم کر رہا ہے، اور گزشتہ تین سالوں سے آن لائن پلیٹ فارم کے ذریعے دنیا بھر میں قرآن و حدیث کی تعلیم دے رہا ہے۔ جامعہ سعیدیہ دارالقرآن کا مقصد قرآن و سنت کی تعلیمات کو عام کرنا اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جو اسلامی اقدار پر مبنی ہو۔ جامعہ سعیدیہ دارالقرآن اس بات پر زور دیتا ہے کہ شبِ برات کی فضیلت سے فائدہ اٹھایا جائے، اس رات میں عبادت کی جائے اور گناہوں سے توبہ کی جائے۔
خلاصہ
شبِ برات ایک عظیم رات ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت، مغفرت اور برکتوں سے معمور ہے۔ ہمیں اس رات کی قدر کرنی چاہیے اور اس میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنے گناہوں سے توبہ کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے اپنی اچھی تقدیر کی دعا کرنی چاہیے۔ اور صرف ان کاموں کو کرنا چاہیے جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شبِ برات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
شعبان المعظم اور شبِ برات: اہم سوالات اور جوابات
شعبان المعظم میں کس طرح سے روزہ داری کا فائدہ ہوتا ہے؟
جواب: شعبان المعظم میں روزہ رکھنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام مہینوں میں شعبان کے روزے رکھنا زیادہ محبوب تھا۔ اس مہینے میں روزہ رکھنے سے رمضان المبارک کے لیے جسمانی اور روحانی طور پر تیاری ہوتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔
شعبان المعظم میں کس طرح سے صدقہ دینا فضیلت دیتا ہے؟
جواب: شعبان المعظم میں صدقہ و خیرات کرنے سے اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے اور گناہ معاف ہوتے ہیں۔ اس مہینے میں دیا جانے والا صدقہ رمضان المبارک کے لیے برکت کا باعث بنتا ہے اور معاشرے میں ضرورت مندوں کی مدد کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔
شعبان المعظم میں کس طرح سے دعا کرنا مفید ہوتا ہے؟
جواب: شعبان المعظم میں دعا کرنا بہت مفید ہے، کیونکہ یہ مہینہ قبولیت دعا کا مہینہ ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رجب کی آمد پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا فرماتے تھے: “اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکتیں نازل فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا۔”
شعبان المعظم میں کس طرح سے صلوات فرستادن (درود شریف بھیجنا) کا فائدہ ہوتا ہے؟
جواب: شعبان المعظم میں درود شریف پڑھنا بہت افضل ہے، کیونکہ یہ مہینہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے اظہار کا مہینہ ہے۔ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شعبان درود و سلام بھیجنے کا مہینہ ہے، کیونکہ درود و سلام کی آیت اسی مہینے میں نازل ہوئی تھی۔
شعبان المعظم میں کس طرح سے توبہ کرنا اہم ہوتا ہے؟
جواب: شعبان المعظم میں توبہ کرنا بہت اہم ہے، کیونکہ یہ مہینہ گناہوں سے پاک ہونے کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور ان کے گناہوں کو معاف کرتا ہے۔ توبہ کرنے سے انسان کا دل صاف ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے۔
شبِ برات میں کس طرح سے عبادت کرنی چاہیے؟
جواب: شبِ برات میں عبادت کرنے کے لیے درج ذیل طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں:
- نماز نفل ادا کرنا
- قرآن مجید کی تلاوت کرنا
- ذکر و اذکار کرنا
- دعا و استغفار کرنا
- صدقہ و خیرات کرنا
- قبرستان جانا اور مرحومین کے لیے دعا کرنا
شبِ برات میں کس طرح سے گناہوں کی معافی ملتی ہے؟
جواب: شبِ برات میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ اس رات میں گناہوں کی معافی حاصل کرنے کے لیے سچے دل سے توبہ کرنا، استغفار کرنا اور اللہ تعالیٰ سے رحم کی دعا کرنا ضروری ہے۔
شبِ برات میں کس طرح سے روزے رکھنا فضیلت دیتا ہے؟
جواب: شبِ برات کے دن روزہ رکھنا مستحب ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو اس رات کو قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو۔”
شبِ برات میں کس طرح سے دعا کرنا مفید ہوتا ہے؟
جواب: شبِ برات میں دعا کرنا بہت مفید ہے، کیونکہ یہ رات قبولیت دعا کی رات ہے۔ اس رات میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں قبول فرماتا ہے اور ان کی حاجات پوری کرتا ہے۔
شبِ برات میں کس طرح سے توبہ کرنا اہم ہوتا ہے؟
جواب: شبِ برات میں توبہ کرنا بہت اہم ہے، کیونکہ یہ رات گناہوں سے پاک ہونے کی رات ہے۔ اس رات میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور ان کے گناہوں کو معاف کرتا ہے۔ توبہ کرنے سے انسان کا دل صاف ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے۔
Leave A Comment