دعا کی عظمت و اہمیت، عمدہ وظیفہ اور اللہ پاک کی بارگاہ میں پسندیدہ عمل ہے۔ دعا در حقیقت بندے اور اس کے خالق و مالک کے درمیان کلام، راز و نیاز اور بندگی کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ دعا بندے کو رب سے ملانے، اس کی بارگاہ میں حاضر ہونے کی ایک صورت ہے۔
عام طور پر جو سکون و راحت دعا کرنے سے حاصل ہوتی ہے وہ کسی اور عبادت میں حاصل نہیں ہوتی۔ دعا عبادت بلکہ مغزِ عبادت ہونے کی وجہ سے جس طرح آخرت کے اعتبار سے فائدہ مند ہے اسی طرح دنیا میں بھی بہت مفید ہے، مثلاً مشکلوں، مصیبتوں، پریشانیوں اور بیماریوں سے چھٹکارے کے لیے دعا ایک اہم ذریعہ ہے۔ دعا کی عظمت و اہمیت پر قرآن و سنت میں کثیر آیات و احادیث وارد ہوئی ہیں۔
Read More: Dua for Childs Righteousness
:دعا کے متعلق ارشادِ باری تعالٰی
:قرآن کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا
اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ
ترجمہ: میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب مجھے پکارے۔ (پارہ ۲، سورہ بقرہ، آیت نمبر ۱۸۶)
ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ
ترجمہ: مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا۔ (پ۲۴، المؤمن: ۶۰)
فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ ۙ وَ نَجَّیۡنٰہُ مِنَ الْغَمِّ ؕ وَکَذٰلِکَ نُـنْجِی الْمُؤْمِنِیۡنَ۔
ترجمہ: پس ہم نے یونس کی دعا قبول فرمائی اور اسے غم سے نجات دی اور یونہی نجات دیں گے ایمان والوں کو۔ (پ۱۷، الأنبیاء: ۸۸)
:دعا کے متعلق احادیث نبوی ﷺ
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:
- دعا ہی عبادت ہے۔ (سنن ابی داؤد، باب الدعا، جلد نمبر ۱، صفحہ ۴۶۶، حدیث نمبر ۱۴۷۹، شاملہ)
- دعا عبادت کا مغز ہے۔ (سنن ترمذی، باب الدعوات، جلد ۵، صفحہ ۴۵۶، حدیث نمبر ۳۳۷۱، شاملہ)
- سب سے زیادہ بزرگی والی عبادت دعا ہے۔ (الادب المفرد للبخاری، حدیث نمبر ۷۱۲، شاملہ)
- سب سے افضل عبادت دعا ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین، جلد ۲، صفحہ ۱۴۳، حدیث نمبر ۱۸۰۵، شاملہ)
- دعا رحمت کی کنجی ہے اور وضو نماز کی کنجی ہے اور نماز جنت کی کنجی ہے۔ (فیض القدیر، جلد ۳، صفحہ ۵۴۰، حدیث نمبر ۴۲۵۷، شاملہ)
- دعا مومن کا ہتھیار ہے اور دین کا ستون اور آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین، جلد ۲، صفحہ ۱۴۴، حدیث نمبر ۱۸۱۲، شاملہ)
- دعا تقدیر کو ٹال دیتی ہے اور بے شک نیکی رزق کو زیادہ کرتی ہے۔ بے شک بندہ اپنے گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم رہتا ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین، جلد نمبر ۲، صفحہ نمبر ۱۴۵، حدیث نمبر ۱۸۱۴، شاملہ)
- اے میرے بچے! دعا کی کثرت کر کیونکہ دعا تقدیر مبرم کو ٹال دیتی ہے۔ (الترغیب فی فضائل الاعمال، جلد ۱، صفحہ ۱۶۳، حدیث نمبر ۱۵۰، شاملہ)
قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ قرآن و حدیث میں دعا مانگنے کے کتنے فضائل ہیں اور اللہ پاک دعا مانگنے والوں کو کس قدر پسند فرماتا ہے اور انہیں ان کی دعاؤں کا بدلہ دنیا اور آخرت میں عطا فرماتا ہے۔ دعا کے بے شمار فوائد و ثمرات ہیں جن سے ہمیں محروم نہیں رہنا چاہیے اور کثرت سے دعا مانگنی چاہیے کہ جو بگڑے کام کو سنوارتی اور مصیبت سے بچاتی ہے۔ دعا کی قبولیت کی ایک ایسی ہی ایمان افروز حکایت ملاحظہ فرمائیں۔
:دعا کے کی برکت سے گمشدہ بیٹا مل گیا
حضرتِ سیِدنا ابو سلیمان رومی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرتِ سیدنا خلیل صیّاد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ایک مرتبہ میرا بیٹا شہر سے باہر کھیتوں کی طرف گیا اور گم ہو گیا، خوب ڈھونڈا لیکن کہیں نہ ملا، بیٹے کی جدائی پر اس کی ماں غم سے نڈھال ہو گئی۔
میں حضرت سیِّدنا معروف کرخی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے ابو محفوظ! میرا بیٹا لاپتہ ہو گیا ہے۔ اس کی والدہ بیٹے کی جدائی میں غم سے نڈھال ہوئی جا رہی ہے۔ آپ نے فرمایا: اب تم کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: حضور! دعا فرمائیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمارے بیٹے کو ہم سے ملوا دے۔
یہ سن کر ولی کامل، مقبولِ بارگاہِ خداوندی، حضرت سیِّدنا معروف کرخی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور اس طرح التجا کی: ’’اے میرے پروردگار عَزَّ وَجَلَّ! بے شک تمام آسمان تیرے ہیں، زمین تیری ہے اور جو کچھ بھی ان کے درمیان ہے سب کا مالک و خالق تو ہی ہے۔ میرے مالک! ان کا بچہ انہیں لوٹا دے۔‘‘ حضرت سیِّدنا خلیل صیّاد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کہتے ہیں: پھر میں آپ کی اجازت سے شہر کے دروازے پر آیا تو اپنے بیٹے کو وہاں موجود پایا اس کا سانس پھول رہا تھا۔
میں نے جب اپنے بیٹے کو دیکھا تو فرطِ محبت سے پکارا: اے محمد! اے میرے بیٹے! میری آواز سن کر وہ میری طرف لپکا۔ میں نے اسے سینے سے لگا کر پوچھا: میرے لختِ جگر تم کہاں تھے؟ کہا: ابا جان میں گندم کے کھیتوں میں مارا مارا پھر رہا تھا کہ اچانک یہاں پہنچ گیا۔
میں اپنے بچے کو لے کر خوشی خوشی گھر کی طرف چل دیا۔ یہ حضرت سیِّدنا معروف کرخی کی دعا کی برکت تھی کہ مجھے میرا بیٹا مل گیا۔ (عیون الحکایات، الحکایۃ الحادیۃ عشرۃ بعد الثلاثمائۃ، ص۲۷۸، ماخوذاً)
:دعا کی قبولیت میں رکاوٹ
یاد رہے! اللہ پاک سب کی دعائیں قبول فرماتا ہے مگر اس کا بدلہ کبھی فوراً تو کبھی تاخیر سے دیتا ہے، یہ سب اس کی حکمت پر ہے مگر بعض اوقات ہمارے کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جو ہماری دعاؤں کی قبولیت میں رکاوٹ کا سبب بن جاتے ہیں۔ چنانچہ منقول ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے زمانے میں قحط پڑا، آپ بنی اسرائیل کو لے کر تین بار دعا کے واسطے گئے مگر بارش نہ ہوئی، اللہ کریم نے وحی بھیجی: اے موسیٰ! میں تیری اور تیرے ساتھ والوں کی دعا قبول نہ کروں گا کہ تم میں ایک نَمام (چُغل خور) ہے کہ ایک کا عیب دوسرے سے بیان کرتا ہے۔
عرض کی: اے رب! وہ کون ہے کہ اس کو ہم اپنے گروہ سے نکال دیں؟ حکم آیا: میں تمہیں نمیمی (چغل خوری) سے منع کرتا ہوں اور خود ایسا کروں؟ سیدنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سب کو توبہ کا حکم کیا، توبہ کے بعد دعا مانگتے ہی بارش برسی۔ (إحیاء العلوم، کتاب الأذکار والدعوات، الباب الثاني، ج۱، ص۴۰۷، مترجم)
قارئین کرام! غور فرمائیں صرف ایک شخص کی چغل خوری سب کی دعاؤں میں رکاوٹ کا سبب بن گئی۔ آج ہم اپنی حالت پر غور کریں کہ ہم کس قدر گناہوں کے دلدل میں دھنس چکے ہیں، بھلا ہماری دعائیں کیسے مقبول ہونگی! ہمیں چاہیے کہ ہم خود کو گناہوں اور بری عادتوں سے محفوظ رکھیں تاکہ بد اعمالی ہماری اور ہمارے ارد گرد کے لوگوں کی دعاؤں کی قبولیت میں رکاوٹ نہ بنے۔ رب کریم ہمیں کثرت سے دعا کرنے والا بنا دے اور نیکیوں کی توفیق عطا فرمائے۔
Leave A Comment