10 ذی الحجہ وہ تاریخی، مبارک اور عظیم الشان دن ہے جب امت مسلمہ کے مورثِ اعلیٰ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بڑھاپے میں عطا ہوئے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حکم الٰہی کی خاطر قربان کرنے کا ایسا قدم اٹھایا کہ آج بھی اس منشائے خداوندی کی تعمیل پر چشم فلک حیران ہے۔ دوسری طرف حضرت اسماعیل علیہ السلام نے رضا مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی گردن اللہ کے حضور پیش کر کے قربانی کے تصور کو ہمیشہ کے لئے امر کرنے کا ایسا مظاہرہ کیا کہ خود ’’رضا‘‘ بھی ورطہ حیرت میں مبتلا ہوگئی۔
Read More: Qurbani Kya Hai
ان دونوں کی فرمانبرداری اور قربانی کو اسی وقت رب تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا اور آپ کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو سلامتی کا پروا نہ عطا کر کے آپ علیہ السلام کی جگہ ایک دنبہ بھیج دیا جسے رب تعالی نے ذبحِ عظیم قرار دیا ہے۔ قرآن حکیم کی آیت دلالت کرتی ہے:
وَفَدَيْنٰـهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ.
اور ہم نے عظیم قربانی کا فدیہ دے کر اس کو بچا لیا۔
(الصٰفٰت، 37: 107)
قربانی کی تاریخی اہمیت پر قرآن حکیم کی یہ آیت دلالت کرتی ہے:
وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّيَذْکُرُوا اسْمَ اﷲِ عَلٰی مَا رَزَقَهُمْ مِّنْم بَهِيْمَةِ الْاَنْعَام.
اور ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ ان مویشی چوپایوں پر جو اﷲ نے انہیں عنایت فرمائے ہیں (بوقتِ ذبح )اللہ کے نام کا ذکر کریں۔
(الحج، 22: 34)
اسلام کا تصور قربانی نہایت ہی پاکیزہ، اعلیٰ اور افضل ہے۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنت ابراہیمی یعنی قربانی کا جو تصور دیا وہ اخلاص اور تقوی پر زور دیتا ہے۔ قربانی اور تقوی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عید الاضحی کے روز ہر مسلمان اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کرتا ہے جو رویائے صادقہ پر منشائے خداوندی سمجھتے ہوئے حضرت ابرہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے پیش کی تھی۔
قربانی کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول اور شیطانی قوتوں کو خائب وخاسر بنانا ہے۔ قربانی کی اصل روح انسان میں تقویٰ کو پروان چڑھانا ہے نہ کہ محض جانور قربان کر کے گوشت اور خون اس کی نذر کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو بھی ذبیح جانور کا گوشت اور خون نہیں بلکہ دلوں کا تقویٰ اور اخلاص پہنچتا ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
لَنْ يَّنَالَ اﷲَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـکِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ.
ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے۔
(الحج، 22: 37)
صد افسوس کہ آج کے ماحول میں قربانی سنت ابراہیمی کی بجائے دکھلاوے کی قربانی بن چکی ہے۔ لوگ ذاتی نمود ونمائش کے لیے قربانی میں غلو کرنے لگے، اپنی دولت کا رعب جمانے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں اخلاص وتقوی سے اپنا دامن خالی کر کے ریاکاری کو اپنا شعار بنا چکے ہیں۔
اسوہ ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کا اصل مقصد جانور ذبح کرنا، نفسانی خواہشات کی تکمیل اور دکھلاوہ نہیں بلکہ طلبِ رضائے الٰہی ہے۔ قربانی کے ذریعے انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، انبیاء کرام علیہم السلام سے محبت اور خلوص وایثار کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔
قربانی کا اصل فلسفہ تقوی کا حصول اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ اگر اسی جذبے سے قربانی کی جائے تو یقینا وہ بارگاہ الٰہی میں شرفِ قبولیت کی سند پاتی ہے۔ اور اگر ریاکاری سے کام لے کر نمود ونمائش اور اپنی دولت کا رعب ڈالنے کے لیے قربانی کی جائے تو ایسی قربانی روز محشر کے ثواب سے محروم کر دیتی ہے۔
قربانی کا جانور لیتے وقت سے لے کر اسے اللہ کی راہ میں ذبح کرتے وقت یہی خیال ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اس قربانی کا مقصد صرف رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ کیونکہ جو جانور اللہ کی رضا کے لیے ذبح کیا جاتا ہے اس کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں قربانی قبول ہو جاتی ہے۔
قربانی دینے میں بھی غریبوں کا فائدہ ہے۔ ہمارے ہاں بے شمار غریب لوگ ایسے ہیں جنہیں سال بھر گوشت کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ قربانی کے اس عمل سے سال میں ایک بار انہیں بھی یہ نعمت میسر ہوتی ہے۔ بہت سے غریب لوگ سال بھر جانور اسی ارادے سے پالتے ہیں کہ عید پر انہیں بھی کچھ رقم حاصل ہو جائے گی۔ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی افزائشِ نسل کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ ان کے چارے اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے سے بھی بہت سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔
قربانی کے جانوروں کی کھالوں کے بہت سے مصارف ہیں۔ اس وجہ سے چمڑے کے کاروبار کو خوب ترقی ملتی ہے۔ قربانی کی کھالیں فلاحی اداروں، مدارس اور دیگر نیک مقاصد کے لیے دی جاتی ہیں جن سے حاصل ہونے والی رقوم بھی غریبوں کے کام آتی ہیں۔
دسویں ذی الحجہ کو اللہ رب العالمین کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل جانوروں کا خون بہانا یعنی قربانی ہے۔ ایک سچے مسلمان کے پیشِ نظر فقط رضائے الہی کا حصول ہوتا ہے اور وہ مالک کے حکم کے سامنے سر جھکا دیتا ہے۔
عید الاضحی ایک ایسا موقع ہے جب مسلمان دنیا بھر میں اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے قربانی کا عمل انجام دیتے ہیں۔ یہ عمل صرف ایک رسم سے زیادہ ہے؛ اس کے پیچھے گہری روحانی اور اخلاقی تعلیمات موجود ہیں جنہیں سمجھنا ضروری ہے۔
قربانی کا مقصد
قربانی کا مقصد صرف جانور کی ذبح نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے ایک گہرا معنی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“لَنْ یَّنَالَ اللهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـکِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ.” (الحج، 22: 37)
یعنی، “اللہ کو ان جانوروں کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا، بلکہ اسے تمھاری تقویٰ پہنچتی ہے۔”
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ قربانی کا اصل مقصد دل کی صفائی اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ ہمیں اپنے دلوں میں خدا کی محبت اور اس کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔
قربانی کے روحانی فوائد
- تقویٰ کا حصول: قربانی کے ذریعے ہم اپنے دلوں میں تقویٰ پیدا کرتے ہیں۔ تقویٰ کا مطلب ہے اللہ سے ڈرنا اور اس کی حدود میں رہنا۔
- اخلاص کا اظہار: قربانی کے ذریعے ہم اپنے اخلاص کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اس عمل کو انجام دے رہے ہیں۔
- شکر گزاری: قربانی کے ذریعے ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے ہمیں بہت سی نعمتیں عطا کی ہیں۔
- اخوت اور بھائی چارے کا احساس: قربانی کے گوشت کو غریب اور ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کرکے ہم اخوت اور بھائی چارے کا احساس پیدا کرتے ہیں۔
قربانی کے اخلاقی پہلو
قربانی کے عمل میں کئی اخلاقی سبق بھی موجود ہیں:
- قربانی کا جذبہ: قربانی کے ذریعے ہم اپنے اندر قربانی کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی خواہشات اور ذاتی مفادات کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے قربان کریں۔
- احسان کا سلسلہ: قربانی کے گوشت کو غریب اور ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کرکے ہم احسان کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔
- صبر اور استقامت: قربانی کے عمل میں صبر اور استقامت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے فرائض کو پوری لگن اور اخلاص کے ساتھ انجام دیں۔
نیک اعمال کے باطنی نتائج
ہر نیک عمل اپنے باطن میں نور رکھتا ہے، لیکن اگر اس نیک عمل کے نتیجے میں باطن میں نور پیدا نہ ہو تو وہ عمل ادا تو ہوجاتا ہے لیکن اپنی تاثیر و اثرات نہیں رکھتا۔ مثلاً: نماز کے اثرات و نتائج کو واضح کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے فرمایا:
“اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهیٰ عَنِ الْفحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ.” (العنکبوت، 29: 45)
یعنی، “بے شک نماز بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے۔”
نماز انسان کو فحش کاموں سے روکتی ہے لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نماز بھی ادا کرتے ہیں اور برے کاموں کو بھی انجام دیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے عمل تو کیا لیکن اس عمل کو اس انداز میں نہیں کیا جیسے کہ اسے ادا کرنے کا حق تھا۔ اب نماز کی ادائیگی کا عمل تو پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، نماز قضاء نہیں لکھی گئی لیکن اس نماز نے باطن میں جو نور پیدا کرنا تھا اور جس نور نے ہمارے دل پر اثر کرنا تھا، وہ نور پیدا نہیں ہوا۔ درحقیقت اسی نور نے ہمیں فحش کاموں سے روکنا تھا۔
رضائے الہٰی کا حصول
معزز قارئین! ایک حقیقی مومن اور مسلمان اپنی زندگی کا ہر کام اللہ رب العزت کی خوشنودی اور رضا کے لیے کرتا ہے۔ جملہ نیک اعمال کی بجا آوری اور برے اعمال سے اجتناب کا مقصد رضائے باری تعالیٰ کا حصول ہے کہ میرا مولا، میرا مالک، میرا آقا، میرا خالق مجھ سے راضی ہوجائے۔
اگر نیک اعمال کے نتیجہ میں انسان کی زندگی کا مقصد خدا کو راضی کرنا ہے تو سوال یہ ہے کہ اگر کوئی کسی کو راضی کرنا چاہے تو اس کے بتائے ہوئے طریقے سے اسے راضی کرے گا یا اپنے طریقے سے اسے راضی کرے گا؟ لازمی بات ہے کہ پہلے وہ اس بات کا علم حاصل کرے گا کہ میرے محبوب کو کون سی بات خوش کرتی ہے۔
جو عمل میں انجام دینے لگا ہوں، یہ عمل کس انداز، کس نہج اور کس ڈھنگ سے انجام دوں تو وہ راضی ہوگا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنی مرضی اور اپنے انداز سے عمل کریں اور پھر یہ بھی چاہیں کہ مولا راضی بھی ہو۔ کام بھی ہم اپنی مرضی سے کریں، منزل کا تعین بھی خود کریں، طریقہ کار بھی ہمارا ہو لیکن خدا راضی ہوجائے تو ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔
جب راضی اسے کرنا ہے اور بتایا ہوا کام بھی اسی کا ہے، تو پھر اس کے بتائے ہوئے طریقے پر ہی عمل پیرا ہونا ہوگا۔ گویا یہ امر ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ جب کام اس کا ہے تو طریقہ بھی بتایا ہوا اسی کا ہوگا، تب ہی اس کی رضا کا حصول ممکن ہوگا۔
عملِ قربانی کے محبوب و مقبول ہونے کا راز
نیک اعمال کے باطنی نتائج، اللہ رب العزت کی رضا اور اس کے طریقہ کار کے مطابق اعمال سرانجام دینے کے تصور کو سمجھ لینے کے بعد اب آیئے ہم عیدالاضحی کے موقع پر ذبح کیے جانے والے جانوروں کی قربانی کے حقیقی مقصد اور حکمت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
عیدالاضحی کے دن نمازِ عید ادا کرنے کے بعد سب سے بڑی عبادت اللہ کے حضور جانور کی قربانی پیش کرنا ہے۔
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
“قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَارَسُوْلَ اللّٰهِ مَاهٰذِهِ الْاَضَاحِیْ قَالَ سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاهِیْمَ عِلیه السَّلاَمُ قَالُوْا فَمَالَنَا فِیْهَا یَارَسُوْلَ اللّٰهِ بِکُلِّ شَعْرَةٍ مِّنَالصُّوْفِ حَسَنَةٌ.” (احمد، ابن ماجہ، مشکوة)
یعنی، “رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے انہوں نے عرض کی یارسول اللہ ہمارے لئے ان میں کیا ثواب ہے؟ فرمایا ہر بال کے بدلے نیکی عرض کی یارسول اللہ! اون کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ فرمایا اون کے بدلے نیکی ہے۔”
عیدالاضحی پر قربانی کی اس قدر فضیلت ہے مگر جانور کی قربانی کے وقت چند امور ایسے ہیں جن کی طرف عموماً ہماری نگاہ نہیں جاتی، نتیجتاً ہم وہ عمل کرتے تو ہیں لیکن اس عمل کے اصل نفع اور تاثیرکو حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
ہم قربانی پیش کرکے اپنے ذمہ ایک واجب کی ادائیگی تو کردیتے ہیں، جس سے ہمارے نامہ اعمال میں ترکِ واجب کا گناہ نہیں لکھا جاتا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اللہ رب العزت کو صرف کسی ایک دن میںلاکھوں جانوروں کی قربانی پسند ہے کہ ان کا خون بہایا جائے؟ اس عمل میں وہ کیا خاص بات ہے کہ اللہ رب العزت نے اس عمل کو اتنا محبوب جانا کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
“مَاعَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ یَوْمَ النَّحْرِ عملاً اَحَبَّ اِلَی اللّٰهِ مِنْ هَراقَۃِ الدَّمِ واِنَّهٗ لَیَاْتِیْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ بِقُرُوْنِهَا وَاشعارِهَا وَاَظْلاَفِهَا وَاِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللّٰهِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ علی الارض فَطِیْبُوْا بِهَا نَفْسًا.” (سنن ابن ماجہ، جلد: 2، باب ثواب الاضحیہ، رقم: 1045)
یعنی، “ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی کام نہیں کیا اور بے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔”
گویا عیدالاضحی کے دن اللہ تعالیٰ کو ایک مسلمان کی طرف سے کی گئی قربانی سے زیادہ کوئی شے محبوب نہیں اور یہ عمل انتہائی مقبول ہے۔ عملِ قربانی کے پیچھے کارفرما جس پوشیدہ مقصد نے ہماری اصلاح کرنی تھی، ہم اس تک نہ پہنچے بلکہ صرف ظاہر ہی پر توجہ مرکوز رکھی۔
جانور کی قربانی میں کیا خاص بات ہے؟
جانور ہی کی قربانی میں کیا خاص بات ہے کہ اسی عمل کو ہی کیا جائے گا تو قابلِ قبول ہے؟ اس کی جگہ اتنی مالیت کی خیرات بھی تو کی جاسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بات اگر خیرات کی ہوتی تو اللہ تعالیٰ انسان سے ایک دن میں اتنے جانور ذبح نہ کرواتا بلکہ اس کا ماڈل تبدیل فرمادیتا۔ لہذا یہ بات فقط خیرات کی نہیں ہے بلکہ اس کے اندر کوئی اور راز پوشیدہ ہے جس پر ہماری نگاہ نہیں جاتی۔ درج ذیل روایت سے وہ پوشیدہ راز عیاں ہوجاتا ہے:
آقا علیہ السلام نے ایک روز سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا کہ:
“عائشہ! هلمی المدیة.” (ابوداؤد، ترمذی وغیره، مشکوة، ص: 128)
یعنی، “چھری لاؤ۔” پھر فرمایا:
“اشحذیها بحجر.” (ابوداؤد، ترمذی وغیره، مشکوة، ص: 128)
یعنی، “اسے پتھر پر تیز کرو۔”
عائشہؓ نے کہا:
“ففعلت.” (ابوداؤد، ترمذی وغیره، مشکوة، ص: 128)
یعنی، “میں نے تیز کردی۔”
آپ نے مینڈھے کو پہلو کے بل لٹایا اور ذبح کیا۔
اس حدیث مبارک میں دو امور قابلِ توجہ ہیں:
- اپنی قربانی کو ذبح ہوتے دیکھنا۔
- اپنے ہاتھوں سے قربانی کرنا۔
ہمارا طرزِ عمل یہ ہے کہ ہم نہ اپنے جانور کو خود ذبح کرتے ہیں اور نہ اسے ذبح ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں یعنی اس عملِ قربانی کو اہمیت ہی نہیں دیتے، اس میں دلچسپی نہیں لیتے، ہم قربانی کو بس ایک خرچ سمجھتے ہیں کہ جس طرح سال میں ایک مرتبہ زکوٰۃ دی جاتی ہے، اسی طرح یہ بھی سال کا ایک خرچ ہے، جو ہم نے کردیا ہے اور حصہ ڈال دیا ہے۔ ہم اسے ایک جرمانہ سمجھ کر ادا کرتے ہیں، حصہ ڈال دیا اور بس بات ختم ہوگئی۔
ہم اس عملِ قربانی کی پرواہ ہی نہیں کرتے۔ حتی کہ بعض لوگ اس میں سے کھانا بھی پسند نہیں کرتے کہ ہم تو سارا سال گوشت کھاتے ہیں۔ دراصل ہم نے اللہ کی مرضی اور منشاء سمجھی ہی نہیں ہے کہ وہ ہم سے یہ قربانی کیوں کرواتا ہے۔ اس پر ہم نے کبھی توجہ ہی نہیں کی۔
آقا علیہ السلام کی سنت پر عمل
آقا علیہ السلام دو جانوروں کی قربانی دیتے اور دونوں کو اپنے دست مبارک سے خود ذبح فرماتے۔ آپ ﷺ صحابہ کرامؓ کو بھی فرماسکتے تھے مگر آپ ﷺ نے ایسا نہ کیا بلکہ آپ ﷺ اس بات کو پسند فرماتے کہ میں اپنے جانور خود ذبح کروں، اس لیے نہیں کہ اپنا کام ہے تو خود انجام دیا جائے، نہیں بلکہ اس میں ایک راز ہے۔ اس راز کی تلاش میں قرآن مجید سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے خواب کے واقعہ کا مطالعہ کریں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے صاحبزادے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو اپنا خواب سنایا کہ:
“قَالَ یٰـبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَریٰ فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَریٰ ط قَالَ یٰٓـاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَاللهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ.” (الصافات، 37: 102)
یعنی، “اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں سو غور کرو کہ تمہاری کیا رائے ہے۔ (اسما عیل علیہ السلام نے) کہا ابّاجان! وہ کام (فوراً) کرڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے۔ اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میںسے پائیں گے۔”
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام آپ کو قربانی کے لیے لے گئے اور ذبح کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت ایک مینڈھا اتارا اور اس کی گردن پر چھری چل گئی۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
“وَفَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ.” (الصافات، 37: 107)
یعنی، “اور ہم نے ایک بہت بڑی قربانی کے ساتھ اِس کا فدیہ کردیا۔”
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی جانور کی قربانی کا حکم دے دیتا۔ بیٹے کی قربانی کیوں مانگی؟ اس کے اندر پنہاں پیغام یہ ہے کہ ہم جانور کی جو قربانی پیش کررہے ہیں، یہ محض جانور کی قربانی نہیں بلکہ یہ تو جان کی قربانی ہے۔ اب یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان کی اپنی جان کیوں مانگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ باپ کو بیٹے کی جان اپنی جان سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جان مانگی تو انہوں نے آمادگی سے کہا کہ مولا! میں تو تیری راہ میں قربان ہوں مگر یہ میرا بیٹا بھی قربان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہاں بس یہی امتحان لینا مقصود تھا، جان لینا مقصود نہیں، اس لیے مینڈھا قربان کروادیا۔
بس قربانی کی یہی حقیقت ہے اور اس میں یہی راز پوشیدہ ہے کہ ہم جب اپنے جانور کو قربان کرنے لگیں تو یہ واقعہ یاد کریں کہ اللہ کی مانگ تو ہماری جان ہے اور وہ دیکھنا یہ چاہتا ہے کہ ہم اس پر جان قربان کرتے ہیں یا نہیں۔ اس سے پیار کرتے ہیں یا نہیں۔ اس پر اپنی خواہشات، اپنی زندگی کا آرام و سکون اور مال قربان کرتے ہیں یا نہیں۔ لہذا اپنا جانور ذبح کرتے ہوئے یہ نیت اور خیال رہے کہ میرے مولا قربان تو تجھ پر اپنی جان کرتے ہیں مگر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس سنت پر جانور ذبح کررہے ہیں۔
قربانی کے دوران دل کا حال
گویا بات دراصل دل کے حال کی ہے کہ چھری جانور کی گردن پر چل رہی ہو اور دیکھنے والا اللہ تعالیٰ کی محبت کی تلوار سے کٹ رہا ہو تو پھر اس جانور کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے وہ قربانی اللہ کے ہاں مقبول ہوجاتی ہے۔ خوش دلی اور اخلاص سے جانور قربان کرنے کی وجہ سے اللہ رب العزت ان سے راضی ہوجاتا ہے لیکن اگر دل میں رہے کہ اتنے ہزار کا جانور آیا، میں نے قربان کردیا، کیا فرق پڑا۔ دراصل بات جانور کی نہیں ہے بلکہ بات دل کے حال کی ہے۔
اس دن اللہ تعالیٰ دلوں کے حال پر نگاہ ڈالتا ہے کہ جانور کی قربانی دیتے ہوئے کیا وہ جانور میں اپنے آپ کو دیکھتا ہے یا نہیں۔ کیا اپنی زندگی کی خواہشات کو اللہ کے نام پر ذبح کرتا ہے یا نہیں۔ کیا اپنی زندگی کی برائیوں، گناہوں، نافرمانیوں کو قربان کرنے پر آمادہ ہے۔ کیا اپنے مال کو اللہ کے نام پر قربان کرنے پر آمادہ ہے۔ یہ حال وہ ہے جو اللہ تعالیٰ عیدالاضحی کے دن دیکھنا چاہتا ہے۔
قربانی کا مقصد کیا ہے کا احساس
محترم قارئین! دل کے حال کو یوں بنا لیں کہ اللہ کے حضور جب اپنی قربانی پیش کرنے لگیں تو یوں محسوس کریں کہ قربانی کے جانور کی گردن پر چھری چلانا دراصل ہماری اپنی خواہشات کی گردن پر اس کی محبت و رضا کی چھری کا چلنا ہے۔ اس کے حضور دل کا ہر ہر حال پکار کر کہہ رہا ہو کہ میرے مولا!
جس طرح یہ جانور لیٹا ہے، ہم بھی تیرے حضور اسی طرح عاجز و بے بس ہیں۔ جو تو چاہے ہمارے ساتھ کر، ہم تیری ہر عطا پر راضی ہیں۔ جو کچھ تو ہمیں دے یا ہم سے واپس لے لے، ہم ہر حال میں تجھ سے راضی ہیں۔ پھر اس اخلاص و رضا کو دیکھ کر وہ اپنی بارگاہ سے اس بندے پر خاص عنایت فرماتا ہے۔
قربانی سے قربِ الہٰی کا حصول
ائمہ و علماء اور عرفاء لکھتے ہیں کہ ہر عمل کا ایک اجر ہوتا ہے جیسا کہ تمام عبادات ادا کرنے سے ثواب ملتا ہے لیکن قربانی ایسا عمل ہے کہ جس سے قربِ الہٰی نصیب ہوتا ہے۔
“القربان مایتقرب به الی الله وصارفی التعارف اسماً للنسیکة التی هی الذبیحة.” (المفردات للراغب، ص: 408)
یعنی، “قربانی وہ چیز جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے،اصطلاح شرع میں یہ قربانی جانور ذبح کرنے کا نام ہے۔”
اب کیا قربِ الہٰی صرف گوشت تقسیم کرنے سے حاصل ہوگا؟ نہیں، بات وہی ہے کہ وہ دل کا حال دیکھتا ہے کہ کیا میرا بندہ میرے لیے مرتا ہے یا نہیں۔ اگر وہ اس عمل کے پیچھے اخلاص و للّٰہیت دیکھتا ہے تو پھر وہ اپنے بندوں کو اپنی قربتیں بھی عطا کرتا ہے۔
قربانی دیگر امم پر واجب کیوں نہیں؟
قربانی کا واقعہ تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ہے جو جدالانبیاء ہیں، ان کی نسل میں ہزارہا انبیاء اور اُن کی امتیں آئیں۔ مگر ایسا کیا راز ہے کہ جدالانبیاء کا یہ عملِ قربانی صرف تاجدار کائنات ﷺ کی امت پر واجب ہے۔ یہ یہود و نصاریٰ اور دیگر امم پر اس طرح واجب کیوں نہیں کی گئی جس طرح امتِ مسلمہ پر واجب ہے۔ اس سوال کا جواب ہمیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے تعمیر کعبہ کے واقعہ سے ملتا ہے کہ جب کعبۃ اللہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تو اس موقع پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ایک دعا مانگی۔
میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ کعبۃ اللہ کی تعمیر کے بعد اللہ رب العزت نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا ہوگا کہ مانگو کیا مانگتے ہو؟ اس پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے پھر وہ مانگا جو سالہا سال سے ایک حسرت بن کر ان کے دل میں مچلتا آیا تھا۔ انہوں نے عرض کیا ہوگا کہ مولا! اگر تو راضی ہوگیا ہے کہ ہم نے تیرا گھر بنایا ہے اور اب پوچھتا ہے کہ کیا مانگتے ہو؟ تو بس پھر اپنی سب سے قیمتی شے عطا فرما دے۔ پوچھا گیا ہوگا کہ وہ قیمتی اور محبوب چیز کیا ہے؟ تو پھر عرض کیا ہوگا:
“رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیْهِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ.” (البقرة، 2: 129)
یعنی، “اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( ﷺ ) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔”
یعنی اپنے آخری نبی سیدنا محمد الرسول اللہ ﷺ کو میرے اسماعیل کی اولاد میں سے عطا فرمادے۔ گویا سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اجرت میں خدا کا سب سے پیارا مانگا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اولادِ اسماعیل علیہ السلام میں سے حضور ﷺ کے ہونے کی یہ دعا اچانک ہی نہیں مانگ لی بلکہ وہ اس دعا.
حسرت اور خواہش کو سالہا سال سے اپنے دل میں بسائے ہوئے تھے اور اب صرف موقع کی تلاش میں تھے کہ مولا سے اپنی نسل میں اس کا محبوب ﷺ کب مانگوں؟ پھر جب آپ علیہ السلام نے کعبہ تعمیر فرمایا تو یہ خواہش دعا بن کر لبوں پر آگئی جسے اللہ نے قبولیت کا مژدہ سنایا۔ یہی وجہ ہے کہ اولادِ ابراہیم علیہ السلام میں سے قربانی صرف امتِ محمدی ﷺ پر واجب ہے۔
امتِ محمدی ﷺ کی شکر گزاری
ائمہ فرماتے ہیں کہ قربانی کا مقصد صرف واجب ادا کرنا نہیں ہے بلکہ درحقیقت امت محمدی ﷺ ہر سال اپنے جانور قربان کرکے اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتی ہے کہ اس نے جد مصطفی حضرت اسماعیل علیہ السلام کو زندگی عطا کی اور ان کی وساطت اور ذریعے سے انہیں اللہ کا محبوب ﷺ نصیب ہوا۔
یعنی امتِ محمدی ﷺ سے کہا جاتا ہے کہ اپنے محبوب سے پیار کرنے والو! شکرانے کا یہ انداز اپناؤ کہ ہر سال جانور ذبح کیا کرو کہ اگر اس دن اسماعیل کی جگہ مینڈھا نہ آتا تو تمہیں میرا محبوب ﷺ کیسے ملتا؟ پس خدا نے اپنی سب سے عظیم نعمت اس عظیم امت کو عطا فرمائی جس کے شکرانے میں ہم قربانی ادا کرتے ہیں۔
حضور ﷺ، غربائے امت اور عملِ قربانی
حضرت انسؓ فرماتے ہیں:
“ضحی رسول الله ﷺ بکبشین املحین اقرنین، ذبحهما بیده.” (بخاری و مسلم)
یعنی، “رسول اللہ ﷺ نے سیاہ و سفید رنگوں والے، سینگدار مینڈھے اپنے ہاتھ مبارک سے ذبح فرمائے۔”
جب سے قربانی واجب قرار پائی، آپ ﷺ نے اپنی ساری زندگی ہر سال دو مینڈھے یا جانور باقاعدگی سے ذبح فرمائے۔ صحابہ کرامؓ روایت کرتے ہیں کہ عیدالاضحی کے دن حضور ﷺ نہ صرف ہر سال دو جانور باقاعدگی سے ذبح فرماتے بلکہ وہ جانور قابلِ دید بھی ہوا کرتے تھے۔ یعنی وہ جانور اپنی صحت، قدامت اور رنگت میں حسین ہوتے۔ جو جانور دیکھنے میں خوبصورت تر، فربہ، طاقتور اور قیمتی تصور ہوتا وہ جانور حضور نبی اکرم ﷺ ہر سال ذبح فرماتے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ واجب تو ایک جانور کی قربانی ہے لیکن آقا علیہ السلام دو جانور ہی باقاعدگی سے کیوں ذبح فرماتے؟ کوئی ایک سال بھی ایسا نہ ہوا کہ آقا علیہ السلام نے صرف ایک جانور ذبح فرمایا ہو۔
قربان جائیں ایسے مالک و آقا علیہ السلام پر کہ آپ ﷺ ہر سال ایک جانور اپنی طرف سے واجب کی ادائیگی کے لیے ذبح فرماتے اور ایک اپنی امت کی طرف سے ذبح فرماتے۔ تصور کیجئے کہ کیا کوئی ایسا مالک بھی ہوگا جو اپنے غلاموں کو اتنا یاد رکھے۔ حضور ﷺ قربانی کرتے وقت دعا فرماتے:
“بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّمِنْ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ.” (مشکوة، ص: 127)
یعنی، “الہی محمد ﷺ، آپ کی آل اور آپ کی امت کی طرف سے قبول فرما۔”
(مشکوة، ص: 128)
یعنی، “الہی یہ میری طرف سے اور میرے ان امتیوں کی طرف سے قبول فرما جو قربانی نہیں کرسکے۔”
اپنی ساری حیات مبارکہ میں آپ ﷺ نہ صرف دو جانور ذبح فرماتے رہے بلکہ اپنے وصال مبارک کے قریب مولا علی شیر خداg کو بھی آپ ﷺ نے وصیت فرمائی۔ حضرت علیg روایت کرتے ہیں:
“اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَوْصَانِیْ اَنْ اُضَحِّی عَنْهُ.” (ابوداؤد، ترمذی وغیره، مشکوة، ص: 128)
یعنی، “رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس بات کی وصیت فرمائی تھی کہ میں حضور کی طرف سے قربانی کروں۔سو میں سرکار کی طرف سے (بھی) قربانی کرتا ہوں۔”
لہذا مولا علی شیر خدا آپ ﷺ کے حکم پر اپنے سنِ وصال تک ساری زندگی ہمیشہ دو جانور قربان فرماتے رہے، ایک اپنی طرف سے اور ایک تاجدار کائنات ﷺ کی طرف سے۔
قارئین! جب ہمارے محبوب آقا ﷺ خود قربانی دیتے تو اپنی امت کو کبھی نہیں بھولے تو آج ہم حضور ﷺ کے غلام قربانی دیں تو اپنے آقا ﷺ و مولا کو کیسے بھول جائیں؟ اسی لیے اہل اللہ اور صلحاء میں سے جو لوگ استطاعت رکھتے، وہ دو جانوروں کی قربانیاں کرتے رہے۔ شیخ الاسلام کا بھی ہمیشہ سے یہی معمول ہے کہ دو قربانیاں دیتے ہیں، ایک تاجدار کائنات ﷺ کی طرف سے اور ایک اپنا واجب ادا کرتے ہیں۔
نتیجہ
اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال میں صدق و اخلاص اور للہیت پیدا فرمائے اور ہم جو بھی عمل کریں، اللہ کے لیے کریں، اس عمل کی بجا آوری کو بے خیالی و بے دھیانی سے نہیں بلکہ دلجمعی و خوشدلی کے ساتھ کریں۔ اس لیے کہ اخلاص و صدقِ نیت کے ساتھ ہی کیا گیا عمل ایسا نور پیدا کرتا ہے جو ہماری زندگیوں کو تبدیل کرنے اور اللہ رب العزت کے قرب کے حصول کا ذریعہ قرار پاتا ہے۔
Leave A Comment